خصوصی کالم : خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے ، تحریر چوہدری عطا الرحمان
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے عطاء ُ الرحمن چوہدری آف ٹیکسلا۔
؎ تیری زندگی اِسی سے تیری آبرو اِسی سے جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو رو سیاہی
علامہ اقبالؒ مفکرِپاکستان کے تصور خودی کے پیغام کو اگر مملکت پاکستان کے ذمہ داران نصاب تعلیم کا حصہ بنا کر نئی نسل کے اذہان و قلوب تک اُن کا پیغام پہنچاتے تو یقینا آج ہم منتشرگروہوں کی بجائے ایک قوم ہوتے ۔ایک ایسی قوم جس کی سوچ میں سمندر جیسی گہرائی اور آسمان جیسی وسعت پائی جاتی شبنم جیسی ٹھنڈک اور سورج کی سی گرمی کیونکہ یہی وہ پیغام اقبالؒ کافلسفہ ہے کہ خودی، خود شناسی کا نام ہے خودی معرفت نفس کا نام ہے تو خودی غیرت و حمیت کا ایٹم بم بھی،اور خودی ہی عزت و ناموس کا پنڈال بھی ہے اور خودی عشق و محبت کا گلشن بھی ۔تاریخ شاہد ہے کہ جب بیٹیاں زندہ دفن ہونے لگیں کفرو شرک کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھانے لگے ظلمتوں کے بادل پھیلنے لگے پانی پلانے اور گھوڑا آگے بڑھانے پہ صدیوں جنگیں جاری رہنی لگیں تو رب ِکائنات نے غارِحرا جیسی گمنام جگہ سے اپنا نسخہ کیمیا رحمت العالمین ﷺ پر نازل کرنا شروع کیا جو رہتی دنیا تک مشعل ِ راہ بن گیا اور یہ واضع کر گیا کہ
؎ میرا طریق اَمیری نہیں فقیری ہے خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
یہ اٹل حقیقت ہے کہ جو ہستیاں خودی کے سانچے میں ڈھل کر تیار ہوتی ہیں اُن کے پائوں کی ٹھوکروں سے صحرا ،دریا،دونیم اور پہاڑان کی ہیبت سے رائی ہو جاتے ہیں ان کی خودی سے قیصرو کسریٰ کے ایوان لرز جاتے ہیں۔وہ گردنیں تو کٹا ڈالتے ہیں لیکن جھکنا گوارہ نہیں کرتے۔ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے جو پیغام ہم تک پہنچانے کے لیے ساری زندگی جدوجہد کی اقبالؒ کے اُس قلم کی سچی اور حقیقی پکار سے نئی نسل کو روشناس کرانا نہ صرف والدین بلکہ اساتذہ کا بنیادی اور کلیدی فریضہ ہے۔آل پاکستان پرائیویٹ سکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن ٹیکسلا کے اراکین ایک عرصہ سے واہ ٹیکسلا حسن ابدال کے تعلیمی اداروں کے ما بین ایسے موضوعات پر تحریر و تقریر کے ذریعے جو فریضہ سر انجام دے رہے ہیں وہ مبارکباد کے مستحق ہی نہیں بلکہ اُن کی طرح ملک بھر کی تعلیمی اداروں کی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ نئی نسل کو افکار ِ اقبال سے روشناس کروانے میں اپنا بھر پور حصہ ڈالیں تاکہ اقبال کے یہ شاہین بچے جو زمانے کی خرمستیوں میں پڑھ کر یہ بھول چکے ہیں کہ وہی کبھی ستاروں پہ کمندیں ڈالتے رہے ہیں اور کبھی خدائے لم یزل کا دستِ قدرت رہے ہیںاور وہ کوہِ بیاباں سے گزریں، دشت و صحرا سے یا بحر ظلمات سے اُن کے گھوڑے رُکتے نہیں بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں کیونکہ وہ مرد حق پرست اور مومن کامل ہیں ان شاہین بچوں میں عقابی روح جب تک اساتذہ بیدار نہ کریں گے تو ہم محض بچوں کو تعلیم دے رہے ہوں گے تربیت کے ایک اہم حقیقی زیور سے وہ محروم رہ جائیں گے لہذا اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے وطن عزیز کے نوجوانوں کو اپنی منزل آسمانوں پہ نظر آئے تو ہم باشعور لوگوں کو اقبالؒ کے آفاقی پیغام کو آگے بڑھانا ہو گا اور صدق ِ دل سے ہمیں پہل کرنا ہو گی ان خیالات کا اظہار ممتاز ماہرِ تعلیم ایگزیکٹیو ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر راولپنڈی قاضی محمد ظہور الحق اور دیگر شخصیات جن میں چودھری محمد فرقان،پروفیسر ابرار احمد خان ،طاہر درانی ،شوکت حیات ،عامر انور،ابرار احمد خان ایڈوکیٹ،راجہ طارق اور طلباء مقررین محمد ہارون ،ربایہ اُمِ حبیبہ،منیر خان اور ماہ نور نے گذشتہ روز ٹیکسلا کی ممتاز تعلیمی درسگاہ علامہ اقبال پبلک ہائی سکول ایچ۔ایم۔سی روڈٹیکسلا میں سالانہ بین المدارس مقابلہ حسن ِ قرأت ،نعت خوانی اور تقریری مقابلہ بعنوان ’’استاد قوم کا محسن ہے‘‘اور ’’اقبالؒ کے فلسفہ خودی‘‘کے انعام یافتگان طلباء اور اُن کے اساتذہ میں تقریب تقسیمِ انعامات و اسناد سے اپنے خیالات کے ذریعے کیا۔اس تقریب کی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ واہ چھاونی ٹیکسلا اورٹیکسلا کینٹ کی نجی تعلیمی اداروں کے سر براہان اساتذہ اور طلباء کی بڑی تعداد کی شرکت کے علاوہ ٹیکسلا شہر سے جناب حاجی فرخ محمود مغل،ملک محمد پرویز،شیخ ضیاء الدین ،زبیر خان ،ریاض اعوان ،سید مہتاب حسین شاہ،سید مظہر شاہ ،محمود علی نقی ،پروفیسر عثمان گل نے بھی خصوصی شرکت کی۔تلاوت ،نعت اور تقاریر میں پوزیشن ہولڈرز طلباء نے نہایت ہی احسن انداز میں حاضرین کی سماعتوں کو گرمایا۔آل پاکستان پرائیویٹ سکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن ٹیکسلا کے صدر شیخ قمر احمد،محمد اقبال اعوان،بابر اعوان ،زاہد رفیق،سید محمود شاہ کی خصوصی کاوشوں سے یہ چار روزہ تقریبات اختتام پذیر ہوئیں۔ان چار روزہ بین المدارس مقابلہ جات میں 30تعلیمی درسگاہوں کے کم و بیش 150طلباء نے بڑے ذوق و شوق کے ساتھ حصہ لیا۔تقریب میں اس بات کا عہد کیا گیا کہ اساتذہ کرام درسگاہوں میں ایسا پاکیزہ ماحول اور بچوں کو تعلیم و تربیت سے آشکاراکریں کہ بچے اقبالؒ کے تفکرات و تخیلات سے استفادہ کرنا شروع کر دیں تا کہ ہم پاکستانی قوم اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو دوبارہ حاصل کر سکیں ۔اس تقریب میں میزبان سکول کے ڈائر یکٹر سید ارشاد النبی اور اُن کے سٹاف ممبران میڈیم کنول،محمد آمین بھٹی،شمائلہ عنبرین کوارڈی نیٹر،مس شاہدہ ،مس ماریہ ،مس راز نیاز،مس طاہرہ عظیم،مس تہمینہ مقصوداور بچوں سبھی نے معزز مہمانان ِ گرامی کو خوشگوار انداز میں نہ صرف خوش آمدیدکہابلکہ عزت و احترام سے رخصت بھی کیااُن کے ادارے کے ننھے منے طلباء کے ویل کم سونگ کو بھی حاضرین نے سراہا اور فیڈرل سائنس پبلک سکول کے طلباء کی جانب سے’’ ہمارا کل اور آج‘‘پر مبنی ٹیبلو نے بھی پذیرائی پائی۔ مجموعی طور پر مشعل پبلک سکول ٹیکسلا ،ایچ ۔ایم ۔سی گرلز ہائیر سکینڈری سکول ٹیکسلا ،الائیڈ سکول حسن ابدال،اقراء روضۃالاطفال سکول احاطہ،دی فائونڈرز سکینڈری سکول احاطہ اور علامہ اقبال پبلک سکولز کے طلباء نے بہت سارے انعامات اپنے نام کر لیئے۔قومی ترانے کے ساتھ یہ ایک خوبصورت تقریب اس پیغام کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔
؎ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خُدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
؎ تیری زندگی اِسی سے تیری آبرو اِسی سے جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو رو سیاہی
علامہ اقبالؒ مفکرِپاکستان کے تصور خودی کے پیغام کو اگر مملکت پاکستان کے ذمہ داران نصاب تعلیم کا حصہ بنا کر نئی نسل کے اذہان و قلوب تک اُن کا پیغام پہنچاتے تو یقینا آج ہم منتشرگروہوں کی بجائے ایک قوم ہوتے ۔ایک ایسی قوم جس کی سوچ میں سمندر جیسی گہرائی اور آسمان جیسی وسعت پائی جاتی شبنم جیسی ٹھنڈک اور سورج کی سی گرمی کیونکہ یہی وہ پیغام اقبالؒ کافلسفہ ہے کہ خودی، خود شناسی کا نام ہے خودی معرفت نفس کا نام ہے تو خودی غیرت و حمیت کا ایٹم بم بھی،اور خودی ہی عزت و ناموس کا پنڈال بھی ہے اور خودی عشق و محبت کا گلشن بھی ۔تاریخ شاہد ہے کہ جب بیٹیاں زندہ دفن ہونے لگیں کفرو شرک کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھانے لگے ظلمتوں کے بادل پھیلنے لگے پانی پلانے اور گھوڑا آگے بڑھانے پہ صدیوں جنگیں جاری رہنی لگیں تو رب ِکائنات نے غارِحرا جیسی گمنام جگہ سے اپنا نسخہ کیمیا رحمت العالمین ﷺ پر نازل کرنا شروع کیا جو رہتی دنیا تک مشعل ِ راہ بن گیا اور یہ واضع کر گیا کہ
؎ میرا طریق اَمیری نہیں فقیری ہے خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
یہ اٹل حقیقت ہے کہ جو ہستیاں خودی کے سانچے میں ڈھل کر تیار ہوتی ہیں اُن کے پائوں کی ٹھوکروں سے صحرا ،دریا،دونیم اور پہاڑان کی ہیبت سے رائی ہو جاتے ہیں ان کی خودی سے قیصرو کسریٰ کے ایوان لرز جاتے ہیں۔وہ گردنیں تو کٹا ڈالتے ہیں لیکن جھکنا گوارہ نہیں کرتے۔ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے جو پیغام ہم تک پہنچانے کے لیے ساری زندگی جدوجہد کی اقبالؒ کے اُس قلم کی سچی اور حقیقی پکار سے نئی نسل کو روشناس کرانا نہ صرف والدین بلکہ اساتذہ کا بنیادی اور کلیدی فریضہ ہے۔آل پاکستان پرائیویٹ سکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن ٹیکسلا کے اراکین ایک عرصہ سے واہ ٹیکسلا حسن ابدال کے تعلیمی اداروں کے ما بین ایسے موضوعات پر تحریر و تقریر کے ذریعے جو فریضہ سر انجام دے رہے ہیں وہ مبارکباد کے مستحق ہی نہیں بلکہ اُن کی طرح ملک بھر کی تعلیمی اداروں کی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ نئی نسل کو افکار ِ اقبال سے روشناس کروانے میں اپنا بھر پور حصہ ڈالیں تاکہ اقبال کے یہ شاہین بچے جو زمانے کی خرمستیوں میں پڑھ کر یہ بھول چکے ہیں کہ وہی کبھی ستاروں پہ کمندیں ڈالتے رہے ہیں اور کبھی خدائے لم یزل کا دستِ قدرت رہے ہیںاور وہ کوہِ بیاباں سے گزریں، دشت و صحرا سے یا بحر ظلمات سے اُن کے گھوڑے رُکتے نہیں بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں کیونکہ وہ مرد حق پرست اور مومن کامل ہیں ان شاہین بچوں میں عقابی روح جب تک اساتذہ بیدار نہ کریں گے تو ہم محض بچوں کو تعلیم دے رہے ہوں گے تربیت کے ایک اہم حقیقی زیور سے وہ محروم رہ جائیں گے لہذا اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے وطن عزیز کے نوجوانوں کو اپنی منزل آسمانوں پہ نظر آئے تو ہم باشعور لوگوں کو اقبالؒ کے آفاقی پیغام کو آگے بڑھانا ہو گا اور صدق ِ دل سے ہمیں پہل کرنا ہو گی ان خیالات کا اظہار ممتاز ماہرِ تعلیم ایگزیکٹیو ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر راولپنڈی قاضی محمد ظہور الحق اور دیگر شخصیات جن میں چودھری محمد فرقان،پروفیسر ابرار احمد خان ،طاہر درانی ،شوکت حیات ،عامر انور،ابرار احمد خان ایڈوکیٹ،راجہ طارق اور طلباء مقررین محمد ہارون ،ربایہ اُمِ حبیبہ،منیر خان اور ماہ نور نے گذشتہ روز ٹیکسلا کی ممتاز تعلیمی درسگاہ علامہ اقبال پبلک ہائی سکول ایچ۔ایم۔سی روڈٹیکسلا میں سالانہ بین المدارس مقابلہ حسن ِ قرأت ،نعت خوانی اور تقریری مقابلہ بعنوان ’’استاد قوم کا محسن ہے‘‘اور ’’اقبالؒ کے فلسفہ خودی‘‘کے انعام یافتگان طلباء اور اُن کے اساتذہ میں تقریب تقسیمِ انعامات و اسناد سے اپنے خیالات کے ذریعے کیا۔اس تقریب کی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ واہ چھاونی ٹیکسلا اورٹیکسلا کینٹ کی نجی تعلیمی اداروں کے سر براہان اساتذہ اور طلباء کی بڑی تعداد کی شرکت کے علاوہ ٹیکسلا شہر سے جناب حاجی فرخ محمود مغل،ملک محمد پرویز،شیخ ضیاء الدین ،زبیر خان ،ریاض اعوان ،سید مہتاب حسین شاہ،سید مظہر شاہ ،محمود علی نقی ،پروفیسر عثمان گل نے بھی خصوصی شرکت کی۔تلاوت ،نعت اور تقاریر میں پوزیشن ہولڈرز طلباء نے نہایت ہی احسن انداز میں حاضرین کی سماعتوں کو گرمایا۔آل پاکستان پرائیویٹ سکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن ٹیکسلا کے صدر شیخ قمر احمد،محمد اقبال اعوان،بابر اعوان ،زاہد رفیق،سید محمود شاہ کی خصوصی کاوشوں سے یہ چار روزہ تقریبات اختتام پذیر ہوئیں۔ان چار روزہ بین المدارس مقابلہ جات میں 30تعلیمی درسگاہوں کے کم و بیش 150طلباء نے بڑے ذوق و شوق کے ساتھ حصہ لیا۔تقریب میں اس بات کا عہد کیا گیا کہ اساتذہ کرام درسگاہوں میں ایسا پاکیزہ ماحول اور بچوں کو تعلیم و تربیت سے آشکاراکریں کہ بچے اقبالؒ کے تفکرات و تخیلات سے استفادہ کرنا شروع کر دیں تا کہ ہم پاکستانی قوم اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو دوبارہ حاصل کر سکیں ۔اس تقریب میں میزبان سکول کے ڈائر یکٹر سید ارشاد النبی اور اُن کے سٹاف ممبران میڈیم کنول،محمد آمین بھٹی،شمائلہ عنبرین کوارڈی نیٹر،مس شاہدہ ،مس ماریہ ،مس راز نیاز،مس طاہرہ عظیم،مس تہمینہ مقصوداور بچوں سبھی نے معزز مہمانان ِ گرامی کو خوشگوار انداز میں نہ صرف خوش آمدیدکہابلکہ عزت و احترام سے رخصت بھی کیااُن کے ادارے کے ننھے منے طلباء کے ویل کم سونگ کو بھی حاضرین نے سراہا اور فیڈرل سائنس پبلک سکول کے طلباء کی جانب سے’’ ہمارا کل اور آج‘‘پر مبنی ٹیبلو نے بھی پذیرائی پائی۔ مجموعی طور پر مشعل پبلک سکول ٹیکسلا ،ایچ ۔ایم ۔سی گرلز ہائیر سکینڈری سکول ٹیکسلا ،الائیڈ سکول حسن ابدال،اقراء روضۃالاطفال سکول احاطہ،دی فائونڈرز سکینڈری سکول احاطہ اور علامہ اقبال پبلک سکولز کے طلباء نے بہت سارے انعامات اپنے نام کر لیئے۔قومی ترانے کے ساتھ یہ ایک خوبصورت تقریب اس پیغام کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔
؎ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خُدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
خصوصی کالم : خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے ، تحریر چوہدری عطا الرحمان
Reviewed by Voice of Taxila News
on
00:21:00
Rating:

No comments: