خصوصی کالم : وہ فصل ِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو , عطا الرحمان چوہدری
ورشپ ڈسپلائیز آرگنائز یشن(ڈبیلو ۔ڈی ۔او) واہ چھائونی کی چیئر پرسن محترمہ سارہ امان اور ڈائر یکٹر شرجیل امان کی میزبانی میں بین المذاہب ہم آہنگی کا فروغ ’’پاکستان آرمڈ فورسز‘‘ بالخصوص شہداء پولیس کوئٹہ کو خراج ِتحسین پیش کرنے کے لیے مقامی ہوٹل میں ایک خوبصورت تقریب کا انعقاد کیا گیا۔اس تقریب میں مسلم ،ہندو ،سکھ اور عیسائی برادری کے علاوہ واہ چھاونی اور ٹیکسلا کی ممتاز علمی ،ادبی و سماجی شخصیات جن میں طاہر محمود درانی چیئرمین سر سید ایجوکیشن فائو نڈیشن پاکستان ، صابر جمیل اعوان صدر سوشل و یلفیئر یوتھ آرگنائزیشن احاطہ ٹیکسلا، چودھری محمد اعظم زرعی یونیورسٹی فیصل آباد ، مرزا جاوید اقبال،میاں متین اسلم،شفقت حیات اور سینٹ پالز چرچ سے تعلق رکھنے والی خواتین و حضرات کی بڑی تعداد نے شمولیت کی۔پاسٹر شوکت حیات کی ملک و ملت کے لیے دعائیہ کلمات سے شروع ہونے والی اس تقریب کے مہمانان گرامی میں ساجد محمود گوندل ڈی ایس پی واہ چھائونی اور بابر حسین ایس ایچ او واہ چھائونی شامل تھے۔تقریب میں راقم سمیت دیگر مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اسطرح سے کیا جس کا مختصراً لبالباب یوں ہے۔ وطن عزیز پاکستان کے قیام کے وقت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے جس طرح کی ریاست کے قیام کے بارے میں سوچا تھا اس پر گفتگو تو کی جا رہی ہے اور ہوتی رہے گی لیکن ایک بات جو پاکستان کو اسلامی ریاست کہنے اور پاکستان کو سیکولر ریاست کہنے والوں کے درمیان مشترک ہے اور ہونی بھی چاہیے کہ وہ پاکستان کے اندر آئین اور قانون کے مطابق شخصی اور مذہبی آزادی ہے۔بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ ۱۹۸۵ء کے بعد پاکستان جن مسائل کا شکار ہوا ہے اس میں فرقہ ورانہ تشدد اور عدم برداشت کے رویوں نے پروان چڑھنا شروع کیا اور آج یہ سلسلہ اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے ۔آج مذہب کے نام کے ساتھ ہی خوف اور دہشت کا تصور اجاگر ہونے لگتا ہے۔ حالانکہ کسی بھی مذہب کی بنیاد خوف اور دہشت پہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی مذہب و مسلک خوف اور دہشت کی بنیاد پہ پذیرائی حاصل کر سکتا ہے اور دین اسلام تو اپنے نام کی وجہ ہی سے اس تصور کے خلاف ہے کسی کو طاقت کے زور پر دین اسلام میں شامل ہونے کا کہا جائے یہ تاثر قطعاًبے بنیاد ہے ۔دین ِ اسلام کا جہاد کا تصور انسانیت کو شخصی غلامی سے نکال کر اللہ رب العزت کی ابدیت میں دینے کا نام ہے اگر ہم شریعت اسلامیہ کے مطابق جہاد کی شرائط کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضع ہو جاتی ہے کہ جہاد ظالم کے ظلم کے خلاف اور مظلوم کو حق دلوانے کا نام ہے نہ کہ ظلم اور حق تلفی کرنے کا ۔اس بات کو قرآن مجید اور احادیث رسولﷺ نے بار بار واضع کیا ہے کہ متشرکات پر بات چیت کی جائے۔ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے" تمہارے لیے تمہارا دین اور ہمارے لیے ہمارا دین" کاواضع اعلان یہ بتا رہا ہے کہ مختلف مذاہب کے لوگ ایک معاشرے میں اپنے اپنے دین اور اپنے اپنے مسلک پہ رہتے ہوئے زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ بد قسمتی سے پاکستان کے اندر متشدادانہ رویوں میں اضافہ ہوتا چلا آرہا ہے اسکا ایک سبب جہاں قانون کی بالادستی کا نہ ہونا ہے وہاں پہ دینی اور دنیاوی علوم سے نا واقف لوگوں کے ہاتھوں دین کا یرغمال بنایا جانا بھی ہے۔ مقررین نے کہایہ تقریب بھی عدم برداشت کے رویوں کے خلاف ایک جدوجہد ہے اور اس تقریب کا بنیادی مقصد بھی مختلف مذاہب اور مسالک کے لوگوں کے درمیان مکالمہ کے ذریعے یہ شعور بیدار کرنا ہے کہ کسی بھی مسلک یا مذہبکے ماننے والے دوسرے مسلک یا مذہب یا اسکے مقامات مقدسہ کی توہین کر کے اپنے مذہب یا مسلک کی کوئی خدمت نہیں کر پا رہے بلکہ ایسے رویوں سے شدت پسندی اور انتہا پسندی کو مزید فروغ اور رحجان حاصل ہوتا ہے جس سے مکالمہ کی فضاء مجادلہ میں بدل جاتی ہے۔ہمارے وطن عزیز کے اندر مذہبی رواداری اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی سوچ اُسی وقت پروان چڑھ سکتی ہے جب ہم سب قومی یکجہتی کیپیجپہ ہوں اور کوئی کسی کو مذہب ،مسلک ،قومیت ،صوبائیت ،لسانیت کی بنیاد پہ مطعون نہ ٹھہرائے۔دین اسلام تو امن کا دائرہ ہے۔ پاکستان کے تمام مذاہب کے لوگوں نے پاکستان کی آزادی کے لیے کام کیا اور تمام مذاہب کے لوگ پاکستان کے شہری ہیں ۔ہماری جمہوری حکومتوں کا کردار بھی اس سلسلہ میں کوئی قابل فخر نہ ہے۔تا ہم ہماری حکومتوں کو اپنے ایوانوں کے اندر ایسی پالیسیاں اور قانون سازی کرنا ہو گی کہ اقلیتیں بھی یہ محسوس کریں کہ اُن کے حقوق کا تحفظ یقینی ہے۔سینٹ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں میںاقلیتوں کیلئے محض چند نشستیں مختص کر دینے سے اور وزارت بین المذاہب ہم آہنگی کا صرف قیام اس مسئلے کا حل نہیں۔ اربوں روپے سالانہ بین المذاہب ہم آہنگی وزارت کا بجٹ چند وزراء کرام اور بیو رو کریسی اور منظورِ نظر افراد کے ذریعے سیمینارز ،ورکشاپس ،واکز اور بیرونی ممالک کے دوروں اوربین الاقوامی کا نفرنسوں میں شرکت بلکہ اپنے الللے تللوں پہ خرچ کرنے کی بجائے عملی اقدامات کرنے کی اس وقت سخت ضرورت ہے۔ رواداری اور بین المذاہب ہم آہنگی کے متعلق سرکاری میٹنگز اور میڈیا یعنی ذرائع ابلاغ پہ بات ہوتی ہے وہ جذبہ کیوں نہیں پیدا ہوتا؟ گذشتہ ۱۵،۲۰ سال کے درمیان ملک کے اندر انتہا پسندی اور متشدانہ سوچ کو بہت تیزی سے تقویت ملی ہے اور اسکے سد باب کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش کبھی کی ہی نہیں گئی اور ہمارے سیاسی اکابرین اسے عالمی سازش کہہ دیتے ہیں لیکن اپنے گھر کی طرف کبھی ہم نے نظر ہی نہیں دوڑائی اور یہی وجہ ہے کہ دن بدن حالات میں مزید خرابی پیدا ہو رہی ہے پاکستان کے قیام وقت تمام مذاہب اور مکاتب فکر کے لوگ یکجا تھے اور اسکے نتیجہ میں پاکستان وجود میں آیا ۔یہ بات مسلمہ ہے کہ جب تک ریاست ان قوتوں کو نہیں روکے گی جو دوسرے مذاہب اور مکتبہ فکر کے اکابرین کے خلاف بد زبانی کرتے ہیں یا غلیظ تحریر لکھتے ہیں اُس وقت تک کوئی کوشش موثر انداز میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔موجودہ حالات میں یہ بات ممکن ہے کہ ایسا قانون بنایا جائے جس میں مذاہب ایک دوسرے کے خلافنفرت اور تکفیر پہ پابندی لگائی جائے اور جو اس جرم میں شامل ہو اسے کڑی سزا دی جائے تا کہ ہمارے ملک میں سانحہ بولٹن مارکیٹ، سانحہ جوزف کالونی، سانحہ مدرسہ تعلیم القرآن راولپنڈی جیسے سانحات مستقبل قریب میں وقوع پذیر نہ ہو سکیں۔ طاہر محمود درانی ، شوکت حیات ،مدن لعل بلوچ ، سردار پریتم سنگھ ، مہمان خصوصی ساجد محمود گوندل ،ڈی ایس پی واہ سرکل اور بابر حسین نے اپنے خطابات کے ذریعے شہدائے وطن بالخصوص پاکستان آرمی اور پاکستان پولیس کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے حاضرین محفل اور اہلیان پاکستان کو یہ خوبصورت پیغام دیا کہ ہم اس وطن ِ عزیز کو اسی انداز سے بلند و بالا رکھ سکتے ہیں کہ اسکے درو دیوار ،شجر و حجر آثار یہاں تک کہ ذروں سے بھی قلبی محبت کریں۔ اپنی تاریخ اور اپنی تہذیب سے اپنا رابطہ قائم رکھیں اور اپنی روایات کو ہر لمحہ روبرو رکھیں اور وطن کی مٹی کو عقیدت کی پلکوں سے چومتے رہیں اسی سے ہماری بقاء وابستہ ہے، روح کی تازگی بھی اسی سے ہے اور دل کی شگفتگی بھی اسی سے ہے۔تاریخ و تہذیب اور فکر و عمل کے یہ مادی مظاہر نہ ہوں تا شاہد روحانی راحت بھی ہمیں میسر نہ آسکے اور اس وطن سے محبت اپنی ماں سے بلکہ اپنے مادر وطن سے محبت کرنا ہے کیونکہ اسکی عظیم تا ریخ کے حا شیوں پر ہمارے اسلاف کے لہو کی گل کاریاں ہیں اور اس لیے بھی کہ یہ عظیم الشان نظریے کا مادی مظہر ہے۔جو ہماری نگاہوں کا نور اور دل کا سرور ہے اس لیے بھی کہ اس کے ذرے ستاروں سے زیادہ درخشاں چاند سے زیادہ حسین اور پھولوں سے زیادہ دل آویزاں ہیں ۔اس تقریب میں فاروق بٹ ،سلمان،نداء سموئیل،اقراء وحید،ایمن یونس،سارا منور، ثنائ، صبا،حنا،وکی غوری،عبید غوری،زیبی سارم ،سوشیل حیات اور ملک کے معروف سنگر مہدی حسن مرحوم کے شاگرد رشید روبن گھوش اور بہت سارے دیگر نوجوانوں نے سازو آواز کے ساتھ ملی نغمے،تقاریرکے ذریعے رواداری ، اخوت، بھائی چارے اور امن پسندی کا خوبصورت پیغام دیا۔
؎ یہ دھوپ چاندی ہے یہ پتھر بھی پھول ہیں کیا جانے سحر کیا،مری خاک وطن میں ہے
آئیے ہم سب مل کر یہ دعا کریں کہ
؎ خدا کرے مری ارض ِ پاک پہ اترے وہ فصل ِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو۔
خصوصی کالم : وہ فصل ِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو , عطا الرحمان چوہدری
Reviewed by SKY IRAQ
on
22:30:00
Rating:

No comments: