Top Ad unit 728 × 90

Smiley face

Latest

recent

خصوصی کالم (علم کی اہمیت اور وطن عزیز میں شرح خواندگی کو کیسے بڑھا یا جائے ) ۔۔۔۔۔۔ عطاء ُ الرحمن چوہدری ٹیکسلا


علم کی اہمیت اور وطن عزیز میں شرح خواندگی کو کیسے بڑھا یا جائے       ۔۔۔۔۔۔ عطاء ُ الرحمن چوہدری ٹیکسلا)
علم کا لغوی معنی جاننا، پہنچنانا، واقف ہونا ، سمجھنا اور سیکھنا ہے اصطلاح میں علم سے مراد کسی بھی چیز کو سمجھنا اور حقیقت کی کھوج لگانا ہے ۔ علم ہی کے باعث انسان کو فرشتوں پر فضیلت اور برتری دی گئی ہے اور اﷲ رب العزت نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں۔ علم ہی کی بدولت انسان نے چاند پہ قدم رکھا اور سیاروں کو اپنی قیام گاہ بنایا آج تک انسان نے جتنی ترقی کی ہے وہ علم ہی کی مرہون ِ منت ہے علم ہی سے انسان کو شعور حاصل ہوتا ہے اور اسی شعور کے باعث حیوانوں سے افضل ہے بنیادی طور پر ہم مسلمان ہیں اور اسلام نے علم کو بہت ہی اہمیت دی ہے شریعت اسلامیہ میں علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریم حضرت محمد مصطفی ۖ پر نازل ہونے والی سب سے پہلی وحی کا سب سے پہلا لفظ سے علم کا حکم تھا”اقرائ”یعنی پڑھ” اقراء باسم ربک الذی حلق” اپنے رب کے نام سے پڑھ جس نے پیدا کیا ۔ قرآن حکیم میں ایک جگہ علم کے بارے میں ارشاد ربانی ہے ۔ ” و قُل رب زدنیِ علم” (اورکہہ دیںکہ اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما) ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفےٰ ۖ نے بھی علم کی اہمیت سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے اور ایک اور جگہ آپکا ارشاد ہے کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ نبی کریم روف الرحیم نے فرمایا علم کی طلب میں نکلنے والے کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ جو علم کی طلب میں نکلا وہ واپس لوٹنے تک اﷲ کے راستے میں ہے۔ علم کے ذریعے بندہ اپنے رب کو پہنچانتا ہے اس کی قدرت و اختیار سے واقف ہوتا ہے نہ صرف یہ بلکہ علم کے ذریعے وہ خود اپنی ذات اور اپنی حقیقت کو بھی پہنچانتا ہے اس کو علم ہی کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ اس وسیع و عریض کا ئنات میں اس کا کیا مقام ہے؟ علم کے ذریعے انسان کو فضلیت و برتری حاصل ہوتی ہے علم کی اسی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال نے فرمایا۔ زندگی ہو میری پروانے کی صورت یا رب علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب ہم اپنے ملک پاکستان میں شرح خواندگی کو کس طرح بڑھا سکتے ہیں اور یہ امر کس قدر ضروری ہے۔ آج عالمی نقشے پر جو ممالک ترقی کی درخشاں راہوں پر دولت کے جلو میں آگے بڑھ رہے ہیں سب سے پہلے اُنھوں نے اپنے ممالک کے اندر فروغ تعلیم کیلئے کام کیا کیونکہ شرح خواندگی ہی سے قوم کے ہر فرد میں قومی شعور ، حب الوطنی اور انسانی عظمت کے راز منکشف ہوتے ہیں اور وہ قوم انہی رازوں میں عزت و دولت سائنسی قوت کی روشنی میں تلاش کرکے عالمی سطح پر تکریم و فضیلت پاتی ہے جسکی روشن مثال جاپان ، چین ، امریکہ اور یورپین ممالک ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کم و بیش تین کروڑ بچوں نے سکول نامی چیز کا منہ ہی نہیں دیکھا یوں کہیے کہ ہمارے ملک کی آبادی کے تقریباً 55%لوگ ناخواندہ ہیں وہ اس نور اور طاقت سے محروم ہیں جو ترقی کے ریگزاروں کو عبور کرنے کیلئے لازمی اور ضروری ہیں جسکے بغیر جہالت کے گھٹا توپ اندھیرے ، رموز سے لاعلمی، انسانی عظمت اور معاشی آسودگی سے محرومی دور کرنے سے قاصر ہیں۔ ملک عزیز میں شرح خواندگی کو بڑھا نے کیلئے کئی قسم کے تجربات کیئے جا چکے ہیں اور کئی قسم کی پالیسیاں بنی ہیں لیکن اسکے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے اُسکی سب سے بڑی بنیادی وجہ ہمارے ہاں رائج طبقاتی نظام تعلیم ہے اور پالیسیوںمیں تسلسل کا برقرار نہ ہونا ہے شرح خواندگی میں اضاے کیلئے صوبوں نے پرائمری لازمی تعلیم کا بل تو منظور کیئے ہیں لیکن حالات جوں کے توں ہیں۔پرائمری سطح تک اپنی قومی زبان اور اپنے ملک کی نظریاتی اساس کے عین مطابق سلیبس تشکیل دیکر ہنگامی بنیادوں پر پرائمری تعلیم کو جبری اور ضروری قرار دیا جائے ۔ غریب اور مفلس والدین کے بچوں کو کتابیں ، یونیفارم اور وظائف دئیے جائیںتاکہ چائلڈ لیبر کا خاتمے کے ساتھ ہمارا ہر بچہ درسگاہ کی جانب راغب ہو۔ ہمارے دیہات میں تقریباً 70فی صد آبادی ہے اور اُس آبادی میں ہماری بیٹیوں کیلئے زیادہ درسگاہوں کا قیام عملمیں لا کر اُن کی انرولمنٹ کو یقینی اور لازمی بنایا جائے کیونکہ ایک خاتون کے پڑھنے سے ایک کنبہ تعلیم یافتہ ہو جاتا ہے۔ مکتب سکولز کے سلسلہ کو از سر نو فعال بنایا جائے اور انٹر میڈیٹ اوربیچلر ڈگری حاصل کرنے والے ہرطالب علم کیلئے لازمی قرار دیا جائے وہ ایک بچے/بچی کو کم از کم خواندہ بنائے۔سرکاری و نجی سطح کے اساتذہ کو خصوصی مراعات و احترام دیا جائے طبقاتی نظام تعلیم جو ہمارے ملک کی نظریاتی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے اسکی بجائے یکساں نظام تعلیم مرتب کر کے رائج کیا جائے۔ قومی بجٹ میں دفاع کے بعد سب سے زیادہ رقوم تعلیم کیلئے مختص کی جائیں زیادہ سے زیادہ سکولوں کا قیام عمل میں لایا جائے اور اساتذہ کی میرٹ پر بھرتی کر کے اُن کی ایسی تربیت کا انتظام کی جائے کہ وہ ایک ایسی نسل تیار کر سکیں جو محب وطن ہونے کے ساتھ نظریہ پاکستان کی اساس سے بخوبی آگاہ ہو۔ نجی تعلیمی اداروں کی حوصلہ افزائی کی جائے جو حقیقی معنوں میں فروغ تعلیم کیلئے کام کر رہے ہیں۔ گلی محلوں میں نئی نسل کو بنانے کی بجائے بگاڑنے والوں کا کڑا احتساب کیا جائے جھنوںنے تعلیم کی آڑ میں کاروباری ادارے بنا رکھے ہیں اور اس عظیم پیشے کی تذلیل کر کے نئی نسل کو تبا ہ و برباد کر رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں کھیلوں اور غیر نصابی سر گرمیوں اور کمپیوٹر ایجوکیشن سے آگاہی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں قائم تعلیمی ادارے جو مشنری جذبے سے کام کر رہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کرنا حکومت کا فرض بنتا ہے یونین کونسل سطح پر کمرشل، وکیشنل اور آئی ٹی کے فروغ کیلئے زیادہ سے زیادہ تعلیمی اداروں کا اجراء عمل میں لایا جائے تاکہ ہمارے بچے فنی تعلیم سے بھی آراستہ ہو سکیں۔سرکاری اور پرائیوٹ تعلیمی اداروں کے مابین سوتیلی ماں جیسے سلوک سے گورنمنٹ کو اجتناب برتنا ہو گا سائنس لیبارٹریز، لائبریریز ، کمپیوٹر لیبز ، کے قیام میں نجی تعلیمی اداروں کی حوصلہ افزائی کرنا حکومت کا فرض بنتا ہے کیونکہ تعلیم کے زیور سے قوم کو منور کرنا حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔فروغ تعلیم کا کم و بیش 50%بوجھ نجی سیکٹر نے اپنی مدد آپ کے تحت اٹھا رکھا ہے پرائیوٹ سیکٹر کے اداروں کے بچے پرائمری ، مڈل ، میٹرک ، انٹر میڈیٹ حتی کہ پی ایچ ڈی سطح تک کے امتحانات میں پوزیشن سٹینڈ پر نجی تعلیمی اداروں کے بچے کھڑے ہوتے ہیں ۔ اسکے برعکس سرکار کے زیر انتظام تعلیمی اداروں بالخصوص تعلیمی بورڈز کے حوالے سے جو کارکردگی ہے وہ سب کیلئے سوالیہ ہے۔ نجی سیکٹر کی حوصلہ افزائی اور اُن کی معاونت کی بجائے گورنمنٹ نے کم بیش 32 مختلف اقسام کے ٹیکسز کی مد میں اس سیکٹر کوجکڑ رکھا ہے۔ہمارے پالیسی ساز ادارے پاکستان میں تعلیم کے نام پر عالمی اداروں بالخصوص “یونیسکو”اور “یونیسیف” اور یو ایس ایڈ کے ذریعے ہر سال اپنے کشکول کو بھر کر 80فی صد رقم اپنے الللوں تللوں اور چند افراد کی جیبوں میں بھر کر حکومتی اعداد و شمار میں سب اچھا کی رپورٹ جاری کر کے نہ صرف اپنے ضمیر کے مجرم بلکہ قومی مجرم بن رہے ہیں۔ایسے ہی افراد اس ملک کی تقدیر بدلنے کی راہ میں نہ صرف رکاوٹ بلکہ جہالت اور کرپشن کے فروغ کا باعث ہیں ۔ ایسی چند کالی بھڑوں کی وجہ سے ہمارا ملک فروغ تعلیمکی بجائے ترقی معکوس کی جانب گامزن ہے۔ہر سال کی طرح 8ستمبر کو عالمی یوم خواندگی کے موقع پر ہمارے یونیسف اور یونیسکواور یو ایس اے ایڈ سے مراعات یافتہ ہمارے ادارے اورغیر سرکاری تنظیمیں بڑے بڑے فائیوسٹارز ہوٹلز میں ورکشاپس ، سیمینارز اور مذاکروں اور تعلیمی واکز کا اہتمام کر کے کاغذی ہیر پھیر میں سب اچھا کی رپورٹ پیش کر کے آئندہ مالی سال کیلئے فنڈز کے حصول کیلئے راہ تو ہموار کر لیں گئیں لیکن عملاً زمینی عقائق اسکے برعکس ہیں اگر ہم چائتے ہیں کہ پاکستان میں شرح خواندگی کو بڑھا یا جائے تو سنجیدگی کے ساتھ دفاع کے بعد تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ کر کے اپنی زبان میں یکساں نظام تعلیم رائج کرتے ہوئے نجی شعبہ کی شراکت کو یقینی بناتے ہوئے مثبت اقدامات کرکے ہی پڑھے لکھے پاکستان کے خواب کو عملی جامعہ پہنایا جا سکتا ہے اور علم ہی کے زیور سے ہم اپنے ملک کو جہالت ، غربت ، دہشتگردی اور دوسری لعنتوں سے چھٹکارا دلا کر باوقار اقوام میں اپنا شمار کرا سکتے ہیں


خصوصی کالم (علم کی اہمیت اور وطن عزیز میں شرح خواندگی کو کیسے بڑھا یا جائے ) ۔۔۔۔۔۔ عطاء ُ الرحمن چوہدری ٹیکسلا Reviewed by SKY IRAQ on 21:33:00 Rating: 5

No comments:

All Rights Reserved by Voice of Taxila © 2014 - 2015
Powered By Blogger, Shared by Free WP Themes

Contact Form

Name

Email *

Message *

Powered by Blogger.